Nafsiyat

ADD

Saturday, April 13, 2024

Masturbation in Islam

 

Masturbation in Islam



اسلام اور مشت زنی

 بھرپور کوشیش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔پھر احساس گناہ کی شدت کی وجہ سے خودکشی کی مگر خوش قسمتی سے کامیاب نہ ہو سکا۔مشت زنی گناہ ہے یا نہیں،چھوٹا گناہ ہے یا بڑا،اس پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر خودکشی پر تو دوذخ لازم ہو جاتی ہے۔

مشتت زنی/خودلذتی کے حوالے سے ایک بات ذہن میں رہے کہ شروع میں عموماََ نوجوان اسے شوق سے نہیں کرتے بلکہ مجبوراََ کرتے ہیں دراصل مرد کے مثانے کے قریب منی کی دو تھیلیاں ہوتی ہیں جو منی کا ایک حصہ بناتی ہیں۔یہ نالیاں تقریباََ ساڑھے تین دن بعد بھر جاتی ہیں۔منی کا اخراج نہ ہونے پر ان میں اور ٹینشن ہوتی ہے جس  کی وجہ سے فرد خودلذتی/مشت زنی پر مجبور ہو جاتا ہے۔

مشت زنی کے حوالے سے اماموں کی رائے میں اختلاف ہے۔

امام مالکؒ اور شافیؒ اسے گناہ اور حرام سمجھتے ہیں۔

مام ابو حنیفہؒ کے نزدیک گناہ (زنا) سے بچنے کے لیے بوقت ضرورت کی جاسکتی ہے اور خدا معاف فرما دے گا۔

امام احمد بن حنبلؒ اسے جائز سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک اس کا کوئی گناہ نہیں۔

اسلام میں حلال وحرام بہت واضح ہیں۔اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے جب تک اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اسے حرام قرار نہ دیا ہو۔ قرآن مجید میں مشت زنی کے حرام ہونے کا کہیں بھی واضح ذکر نہیں۔ بعض علماء نے سورہ مومنین کی آیات5,6:





اس سے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ حرام ہے۔ جب کہ بہت سے دوسرے علماء نے یہ مفہوم نہیں لیا کچھ نے کہا کہ اس سے مراد متعہ ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد زنا ہے۔ یعنی اس حوالے سے اہل علم میں خاصا اختلاف ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیوی اور لونڈی کی ہر چیز جائز ہے ۔

قرآن مجید کے مطالعہ سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ بعض جگہ قرآن نے ایک چیز کی حرمت کا صرف اشارہ کیا مگر کسی دوسری جگہ اسے وضاحت سے حرام قرار دے دیا گیا۔ یعنی کوئی ایسا گناہ کبیرہ نہیں جس کو قرآن و حدیث میں واضاحت سے بیان نہ کیا گیا ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں مشت زنی کے حرام ہونے کی کوئی واضح آیت موجود نہیں۔ اس طرح نبیﷺنے بھی اسے حرام قرار نہیں دیا۔میں نے احادیث کی اہم کتب کو چھان مارا،مجھے مشت زنی کی حرمت پر کوئی ایک بھی صیح حدیث نہیں ملی۔ صرف انس بن مالکؒ کے حوالے سے ایک حدیث کا ذکر آتا ہے مگر اہل علم نے اسے غریب قرار دیا ہے کیونکہ اس کے سند میں بعض راوی مجہول اور ضعیف ہیں۔(سلطان احمد اصلاحی)

پھر میں نے علمائے اہل حدیث اور احناف سے بھی رابطہ کیا تو وہ بھی کسی صیح حدیث کی طرف میری رہنمائی نہیں کر سکے۔ یہ مسئلہ موجودہ دور کی پیداوار نہیں بلکہ اللہ کے نبیﷺ کے دور میں بھی تھا۔

 میری ناقص رائے میں اللہ اور اس کے نبیﷺ نے اس مسئلہ سے صرف نظر کیا ہے۔ چنانچہ امام ذہبیؒ نے اپنی مشہور کتاب ” گناہ کبیرہ کی کتاب”میں 78گناہ کبیرہ کاذکر کیا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔

دھوکہ فریب دینا

ماہ رمضان کا روزہ بغیر عذر کے چھوڑنا
حاکم وقت کا رعایا کو دھوکہ دینا اور ان پر ظلم کرنا
دنیاکے حصول کے لیے علم حاصل کرنا اور علم کو چھپانا
کمزور،غلام،لونڈی،بیوی یا جانور پر ظلم کرنا
مصیبت کے وقت طمانچے مارنا، نوحہ کرنا، کپڑے پھاڑنا، سر کے بالوں کو منڈوادینا، بالوں کو نوچنا،ہلاکت اور تباہی کی بددعا کرنا
دیونی اختیار کرنا یعنی اپنے گھر والوں میں اخلاقی برائی (زنا) کو برداشت کرنا۔
اللہ اور روسولﷺ پر جھوٹ بولنا(یعنی ان کی طرف لغویات منسوب کرنا)
تکبر اور بڑائی کی غرض سے تہہ بند ٹخنوں سے نیچے رکھنا
جمعہ اور فرض نماز کو کیتََا ترک کر دینا، باجماعت کی بجائے تنہا نماز پڑھنا
غلط رواج پیدا کرنا یا گمراہی کی دعوت دینا
اللہ کے قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرنا
جنس مخالف کی مشاہبت اختیار کرنا
لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانا
جان بوجھ کر حقیقی نسب سے انکار کرنا
صحابہ کرامؓمیں سے کسی کو گالی دینا
مسلمانوں کی طرف اسلحہ کے ساتھ اشارہ کرنا
سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا
حلالہ کرنے والا اور کروانے والا
اللہ کے تدبیروں سے بے خوف ہونا

مال ٖغنیمت میں خیانت کرنا
اکثر باتوں میں جھوٹ بولنا
فیصلہ کرنے پر رشوت لینا
غلازت سے پرہیز نہ کرنا
مردوں کا سونا یا ریشم پہننا
غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا
جھگڑالوپن کا مظاہرہ کرنا
جعلی حسن پیدا کرنا
حدود حرم میں زیادتی کرنا
دھوکہ دینا اور عہد پورا نہ کرنا
جانواروں کے منہ پر داغ لگانا
مسلمانوں کو تکلیف یا گالی دینا
پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا
نجومی اور کاہن کی تصدیق کرنا
مردار یا خنزیر کا گوشت کھانا
اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا
غلط فیصلہ کرنے والا قاضی
جھگڑے کے دوران گالیاں دینا

قتل کرنا
جادو کرنا
نماز چھوڑنا
زکوٰۃ ادا نہ کرنا
زنا کرنا
عمل قوم لوط
سودی لین دین
یتیم کا مال کھانا
جھوٹی گواہی دینا
شراب پینا
جوا بازی
چوری کرنا
ڈاکہ ڈالنا
جھوٹی قسم کھانا
ظلم و زیادتی کرنا
حرام کھانا
خودکشی کرنا
خیانت کرنا
احسان جتلانا
تقدیر کو جھٹلانا

اللہ کے ساتھ شرک کرنا
چغل خوری کرنا
میدان جنگ سے فرار
بلا وجہ لعنت کرنا
پڑوسی کو تکلیف دینا
خاوند کی نافرمانی کرنا
طاقت کے باجود حج نہ کرنا
والدین کی نا فرمانی کرنا
اضافی پانی روکنا
کم تولنا یا کم ناپنا
نسب کا طعنہ دینا
میت پر نوحہ کرنا
زمین کے نشانات مٹانا
ظلم اور سر کشی کرنا
غنڈہ ٹیکس وصول کرنا
بلا ضرورت تصویر بنانا
گھمنڈ کرنا اور ڈینگیں مارنا
غلام کا بھاگ جانا
مسلمان کو کافر کہنا

پوری فہرست کا بغور جائزہ لیں اس فہرست میں خودلذتی کا کہیں ذکر نہیں۔

ایک زمانے میں مجھے حیرت تھی کہ ایک کام جسے 95%لوگ کرنے پر مجبور ہیں وہ گناہ ہے۔اب علم ہو کہ اللہ اور رسولﷺ نے اس مسئلے میں سکوت فرمایا ہے،مگر ہمارے بعض علماء نے اسے حرام قرار دے دیا۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہم خودلذتی/مشت زنی کی وکالت کر رہے ہیں نہ ہم اس کا مشورہ دیتے ہیں کہ سب لڑکوں اور نوجوانوں کا ایسا کرنا چاہیے۔ہمارہ مقصد صرف یہ ہے کہ اس موضوع پر معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت بیان کریں۔ تا ہم اس کے کوئی نقصانات نہیں اور نہ ہی یہ گناہ کبیرہ ہے۔


0 comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.