Nafsiyat

ADD

About us



 شکر ہے رب کریم کا جس نے مُجھے ایک منفرد اور مفید کتاب لکھنے کی توفیق اور حوصلہ دیا۔ میں اپنے دوستوں اور علماۂ کرام ڈاکٹر صاحبان کا بے حد شکر گزار ہوں جنوں نے مسودے کا ایک ایک لفظ پڑھا اور جنہوں نے شرعیت اور اصول صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے مفید مشوروں کی روشنی میں کتاب میں کئی مفید تبدیلیاں کیں۔میں اکثر بیرون ملک جاتا رہتا ہوں اوراپنی تعلیم بھی بیرون ملک سے ہے حاصل کی ہے اس لیے میرے بہت سے دوست ڈاکٹر صاحبان غیر ملکی ہے۔ میں ایک بہت بڑئی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے یہ کتاب تحریر کر رہا تھا اس لیے شرعیت اور حفظان صحت کا بھی خیال رکھنا تھا اور اس کتاب کے زریعے بہت سی غلط فہمیا ں جو لوگوں کے دماغ میں بسیرا کر چُکی ہیں اُنہیں ختم کر نا تھا اس لیے میں نے علمائے دین سے بھی رہنمائی لی اور ڈاکٹر حضرات نے بھی پوری کوشش کی ہے کے کوئی ایسی بات اس کتاب میں تحریر کرنے سے رہ نہ جائے۔ جن حضرات نے یہ کتاب لکھنے میں میری مدد کی ہے اور رہنمائی کی ہیں (اُن میں سے چند ایک اب حیات نہیں اللہ پاک اُن کی مغفرت فرمائے)آمین۔میں اُن تمام حضرات کے بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میں رہمنای فرماتے ہوے مجھے ہمت دی کہ میں یہ کتاب لکھ سکوں۔

ان تمام حضرات کے بنا میں نہ چیز یہ کتاب لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کتاب میں بہت سا مواد ایسا بھی ہے جس پر لوگوں نے اختلاف کیا کہ اس کتاب کے زریعے فحاشی پہلائی جا ری ہے مگر مُسلمان ہونے کے ناتے ہمیں علم ہے کے شرعا میں کوئی شرم نہیں اور وقت کا تقاضا ہے کے ہماری آنے والی نسل غیر معیاری فلموں یا انٹرنیٹ پر موجود ناقص مواد دیکھ کے بے رہ روی کا شکار ہو رہی ہیں اس لیے اس کتاب میں موجود تصاویروں کو صرف اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔اس کتاب میں قرآن،حدیث کے حوالے بھی دئے گئے ہیں جن کی تحقیق کرنے میں میرے آٹھ سال کا وقت لگا۔اس کتاب کا ایک ایک لفظ میری تمام ساتھیوں نے غور سے پڑھا اور جہا ں کوئی غلطی محسوس کی اُس کی اصلاح کی گئی۔

سیکس ایجوکیشن

اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد امریکہ سے واپسی پر میں نے بہالپور ڈوژن کے ایک چھوٹے سے شہر چشتیاں میں اپنا نفسیاتی کلینک شروع کیا۔ میرا پہلا مریض ایک معمولی پڑھا لکھا دیہاتی نوجوان تھا جس کی انہی دنوں شادی ہوئی تھی مگر یہ نوجوان کئی ماہ گزرنے کے باواجود اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ڈاکٹروں کے مطابق وہ بالکل نارمل تھا یعنی اسے کوئی جسمانی مسئلہ نہ تھا۔ پہلی ملاقات میں اس کے مسئلے پر عمومی گفتگوں ہوئی پھر اسے علاج کے لیے چند دن بعد بلایا گیا مگر وہ نہ آیا۔میں بھی اس نوجوان کو بھول گیا۔ ایک ماہ بعد اچانک اس کے بڑے بھائی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس نوجوان کے متعلق پوچھا۔اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آئے۔اس نے آنسوں پونچھتے ہوئے بتایا کہ اس نے خودکشی کر لی۔
دراصل وہ ابھی تک ازدواجی تعلقات قائم نہ کر پایا تھا۔اس کو یقین تھا کہ وہ اس قابل نہیں حالانکہ اس کے سارے ٹیسٹ نارمل تھے۔پھر شرمندگی سے بچنے کے لیے ایک اندھیری رات بیوی کو لے کر گاؤں سے باہر آیا۔پہلے بیوی کو ایک درخت کے ساتھ لٹکادیا پھر خود بھی اسی درخت کے ساتھ جھول گیا۔حقیقت یہ تھی کہ اسے کوئی جنسی مسئلہ نہ تھا اس کا مسئلہ صرف نفسیاتی تھا اس نے ہمیں مہلت نہ دی کہ ہم اس کی مدد کرتے۔حالانکہ آج کے اس عملی دور میں اس طرح کے مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ہم اس طرح کے مسائل ہر روز حل کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک خاتون نے فون کیا اور بتایا کے اس کی شادی کو 8سال ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ان کے ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے۔بیوی نے اپنے میاں کو علاج کے لیے بھجوایا۔خدا کے فضل سے ہمارئے علاج سے ان کی ازدواجی خوشیاں بحال ہو گئیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔”جنسی زندگی”انسانی زندگی کا اہم ترین پہلوں ہے۔چنانچہ رب العالمین نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اماں احوا کو پیدا فرمایا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ

 

 اسی لیے اللہ کے نبیﷺنے فرمایا کہ” نکاح میری سنت ہے جس نے اس پر عمل نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں “۔ آنحضور  ﷺنے ایک اور جگہ فرمایا”اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا”۔چنانچہ قرآن میں جنسی زندگی کے اہم اصولوں مثلاََ شادی،مباشرت کے طریقے، منی،رحم مادر، حیض،حمل اوراس کے مختلف ادوار،بچے کی پیدائش،زنا،اور ہم جنسیت وغیرہ کا ذکر ہے۔ دوسری طرف اللہ کے نبیﷺ نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جنسی زندگی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی ہے۔بدقسمتی سے ہم میں اکثر لوگ اس سے آگاہ نہیں۔خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ

"Knowledge Is Power & Sexual Snowledge Is Super Power"

چنانچہ میرے خیال میں پاکستان میں ہر فرد کو جنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

مردوں کو،عورتوں کو،بچیوں کو،جوانوں کو، حتیٰ کہ بوڑھوں کو بھی عام تعلیم کی طرح جنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔خصوصاََ نئے شادی شُدہ جوڑوں کو خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے جنسی تعلیم کی سخت ضرورت ہے مگر یہ تعلیم ان کو قرآن اور جدید تحقیق کی روشنی میں شائستگی کے ساتھ ملنی چاہیے۔چونکہ ہمارے ہاں اس طرح کا کوئی انتظام نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل نیم حکیموں،عطائیوں،دیواروں پر اشتہارات اور غیر معیاری کتب سے جنسی معلومات حاصل کرتے ہیں جو کہ اکثر غلط،گمراہ کن اور تباہ کن ہوتی ہیں۔ ان غلط معلومات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سے جنسی مسائل پیدا ہو چکے ہیں جو کہ نارمل ازدواجی زندگی میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں شوہر پاگل ہو جاتے ہیں اور کچھ بیچارے خودکشی کر لیتے ہیں۔

جنسی تعلیم نہ صرف ازدواجی زندگی کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ اس کی مدد سے جنسی جرائم مثلاََ Incestزنا بالجبر اور دوسرے جنسی گناہ مثلاََ ہم جنسیت وغیرہ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

جنسی خواہش بہت تیز اور منہ زور ہوتی ہے جو فرد کو جنسی گناہ اور جنسی جرائم پر مجبور کردیتی ہے اس کے علاوہ سیکس ایجوکیشن کی مدد سے اہم جنسی مسائل مثلاََ سرعتِ انزال اور مردانہ کمزوری وغیرہ کا بھی تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں جنسی تعلیم، تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے مگر وہاں کی تعلیم عموماََ بچوں کو زنا پر آمادہ کرتی ہے۔ ویسے ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے لیے والدین سب سے زیادہ موزوں ہیں نہ کہ تعلیمی ادارے۔باپ بیٹے کو اور ماں بیٹی کو یہ تعلیم دے۔لہٰذا ولدین کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی چاہیئں تا کہ وہ آنے والی نسل کو یہ علم منتقل کر سکیں۔

مگر بچوں کو یہ معلومات مرحلہ وار ملنی چاہئیں مثلاََ دس گیارہ سال کے لڑکے کو علم ہو کہ سوتے میں ان کے عضو مخصوص (Penis)سے ایک خاص قسم کا سفید مادہ خارج ہوسکتا ہے جو کہ بالکل فطری چیز ہے نہ کہ کوئی بیماری۔

ہمارئے ہاں یہ عجیب بات ہے کہ لوگ بچوں کو جنسی تعلیم فراہم کرنے کو برا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ تعلیم دیگر اشکال میں مفصل طور پر سکول،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بیالوجی،فزیالوجی،اناٹومی،گاینی کالوجی اور سائیکالوجی کے مضامین کے طالب علم بچے اور بچیوں کو دی جاتی ہے۔رب کریم قرآن مجید میں اور رحمت العالمین ﷺ نے احادیث میں تفصیل کے ساتھ یہ ضروری اور فطری معلومات فراہم کی ہیں۔یعنی یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جس بات کو قرآن اور صاحب قرآن بتائیں ہم اسے بتاتے ہوئے شرمائیں۔کیا بچوں کو پاکی اور ناپاکی کے بارئے میں معلومات نہیں ملنی چاہیں؟ کیا نوجوانوں کی یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ احتلام اور مباشرت(Intercoserse)کے بعد غسل فرض ہو جاتا ہے؟ایسی صورت حال میں غسل کس طرح کرنا ہے؟کیا ان کو یہ علم نہیں ہونا چاہئے کہ مذی کے قطروں کے اخراج سے غسل فرض نہیں ہوتا؟بہت سے نوجوان نماز پڑھنے میں اس لیے بھی کوتاہی کرتے ہیں کہ وہ ان مذی کے قطروں کو پلید سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قطرے ناپاک نہیں ہوتے۔ اس صورت میں صرف عضو مخصص کو دھو لینا اور وضو کر لینا کافی ہے۔ کیا نوجوانوں کو یہ نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ منی بہت قیمتی چیز ہے؟اور خشک منی کو رگڑکے صاف کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح کیا نوجوانوں کو یہ علم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم جنسیت بہت بڑا گناہ ہے؟ کیا نوجوان نسل کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے کہ میاں بیوی کے جنسی تعلقات پر شرمندگی کی کوئی بات نہیں؟ یہ کوئی بری چیز نہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بیوی کے ساتھ مباشرت کو نیکی اور صدقہ قرار دیا ہے۔ اس طرح کیا لڑکیوں کی یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ حیض کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک فطری چیز ہے جو ان کی بلوغت اور تکمیل کی علامت ہے؟کیا بچیوں کو یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ لیکوریا کوئی بیماری نہیں؟

اگر آپ بچوں کو قرآن،سنت اور جدید علم کی روشنی میں خود جنسی تعلیم نہ دیں گے تو بچے یہ معلومات اپنے دوستوں، دیواروں پر لگے اشتہارات اور غیر معیاری کتب سے حاصل کریں گے جو تقریباََ 100فیصد غلط اور گمراہ کن ہوتی ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق بچے تقریباََ پچاس فیصد جنسی معلومات دوستوں اور 21فیصد کتب سے حاصل کرتے ہیں۔بدقسمتی سے بچوں کے دوستوں کی معلومات نہ درست ہوتی ہے نہ ہی ہمارئے اس موضوع پر معیاری کتب موجود ہیں۔ اس حوالے سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو جنسی تعلیم کب دی جائے؟ اس سلسلے میں قرآن مجید سے رہنمائی ملتی ہے۔ وہ بچے جن کی مادری زبان عربی ہے وہ جونہی قرآن مجید پڑھنا شروع کرتے ہیں ان کی سیکس ایجوکیشن بھی شروع ہو جاتی ہے۔عموماََ بچے 9یا دس سال کی عمر میں قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مشہور ہفت روزہ ٹائم کے ایک سروے کے مطابق عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ جنسی تعلیم 12سال کی عمر سے شروع ہو جبکہ والدین کا خیال ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم سن بلوغت سے پہلے شروع نہیں ہونی چاہیے مگر حقیقت یہ ہے کہ بچہ اپنی جنسی تعلیم اپنی ابتدائی سالوں میں شروع کر دیتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بچے کو صحیح ذرائع سے یہ معلومات نہ ملیں تو پھر وہ غلط اور تباہ کن ذرئع سے گمراہ کن معلومات حاصل کرتا ہے اور انہی معلومات کا اثر ہے کہ نوجوان طبقہ جنسی اور اخلاقی طور پر تباہی کے کنارئے پر کھڑا ہے۔ہمارئے خیال میں جنسی تعلیم بچوں کو گھر ہی سے ملے۔9/10سال کی عمر میں ماں بیٹی کو اور باپ بیٹے کو یہ تعلیم دینی شروع کر دے ریسرچ سے ثابت ہو چکا ہے کہ بچے والدین سے جنسی معلومات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس لیے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ والدین خود قرآن،سنت اور جدید تحقیق کی روشنی میں تازہ  اور صحیح ترین معلومات حاصل کریں تا کی وہ اگلی نسل کو یہ معلومات منتقل کر کے ایک پر سکون اور بہتر معاشرے کی بنیاد رکھیں والدین کے علاوہ استاتذہ کو بھی یہ معلومات حاصل کرنی چاہیں تا کہ وہ حسب ضرورت بچوں کی رہنمائی کر سکیں۔ یہ تعلیم بچوں کو ایک دم نہیں بلکہ مرحلہ وار ملنی چاہیے تا ہم شادی سے پہلے جنسی تعلیم کی تکمیل ہونی چاہیے۔اس تعلیم میں بچوں کو اپنے جسمانی اعضاء(Anatomy)اور ان کے فنکشن و ظائف(Physiology)کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ مباشرت،حلال،حرام، حمل،پیدائش اور جنسی بیماریوں وغیرہ کے حوالے سے معلومات دی جائے۔خصوصاََ جنس SEXکے حوالے سے جتنے مغالطے (Misconceptions)ہیں ان کی حقیقت سے بچوں کو آگاہ کا جائے۔اس کے علاوہ بچوں کو یہ تعلیم و تربیت بھی دی جائے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنسی تشدد(Sexul Abuse)سے کس طرح بچانا ہے۔


0 comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.