حرف آغاز
چند سال پہلے ایک معروف ادارے نے مجھے "نوجوانوں کے مسائل"پر لیکچر کی دعوت دی۔غالباََ پاکستان بھر میں اس طرح کھلے عام SEXجیسے نازک موضوع پر گفتگوکایہ پہلا موقع تھا۔ نوجوان شرکاء نے اس لیکچر میں بہت زیادہ دلچسپی لی چنانچہ کچھ عرصے بعد اسی ادارے نے مُجھے پھر اسی موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اس مرتبہ تقریباََ 19جنسی مغالطّوں کی حقیقت بیان کی گئی جنہوں نے نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کر رکھا تھا۔ نوجوان شرکاء کا خیال تھا کہ ان معلومات نے ان کی زندگی میں آسانی پیدا کی اور مسائل کے بوجھ کو کم کیا۔لہٰذا یہ معلومات پاکستان کے ہر نوجوان تک پہنچنی چاہئیں۔
اس گفتگوں کے بعد محسوس ہوا کہ اس موضوع پر مزید مطالعہ اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ہمارئے ہاں اس موضوع پر معیاری کتب نہ ہونے کے برابر ہیں۔چنانچہ امریکہ اور یورپ میں اپنے دوستوں کو لکھا،اس طرح معیاری اور تازہ کتب حاصل کیں اور ان سے فائدہ اُٹھایا۔اس کے علاؤہ کراچی کے معروف سائیکٹرسٹ سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور رکن جماعت اسلامی ڈاکٹر سید مبین اختر کی تحریروں سے بھی میرے علم میں اضافہ ہوا۔پاکستان میں دستیاب اکثر کتب جہالت اور بے علمی کا شاہکار ہیں۔سیکس کے حوالے سے جتنے یہ نیم حکیم جاہل ہیں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ تین سال کے مطالعہ وتحقیق کا نچوڑہم نے ایک سیمینار کی صورت میں لاہور میں مال روڈ پر الحمرا ہال میں فری پیش کرنا شروع کیا۔ لوگوں کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی۔ تقریباََ 99فیصد لوگوں نے اسے بے حد پسند کیا۔ان کے خیال میں یہ ایک مفید کوشش ہے جب کہ ایک فیصد نے کہا ہم فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ہمارئے کُچھ خیر خواہوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم ذرا احتیاط کریں اور حکیموں کا ذکر نہ کریں ورنہ وہ آپ کو قتل کرادیں گے۔کیوں کہ آپ ان کے رزق پر لات مار رہے ہیں۔
اس دوران ہم نے سیکس کے حوالے سے چند اہم ایشوزپر لاہور کے معروف علماء کی خدمت میں ایک سوال نامہ ارسال کیا۔ اکثر علمائے کرام نے شاید مسائل کو غیر اہم سمجھتے ہوئے جواب نہ دیا یا شایدوہ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے گھبراتے ہیں لیکن آپ اتفاق کریں گے کہ آنکھیں بند کرنے سے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔اس کا سامنا کرنا اور ان کا حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔
البتہ مروف عالم دین ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے بالمشافہ ملاقات کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ سے زائد گفتگوں کا سلسلہ جاری رہا اس کے علاوہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے جناب مفتی صاحب نے جواب دیا اسی طرح مولانہ صاحب نے بھی ملاقات کا موقع دیا اور کئی گھنٹے گفتگوں جاری رہی۔ان علماء کا خیال تھا کہ سیمینار کا سلسلہ چلتے رہنا چاہیے تا کہ لوگوں کو درست معلومات ملیں۔جناب ڈاکٹر صاحب نے مزیدارشاد فرمایا کہ خواتین بھی اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے خاندان بکھررہے ہیں۔ ان کے لیے بھی اسی طرح کے سیمینار کاسلسلہ شروع کیا جائے۔ڈاکٹر صاحب سے بھی دبئی میں رہنمائی حاصل کی گئی۔
الحمرا ہال کا سیمینار کامیابی سے رواں دواں تھا کہ انظامیہ کو محسوس ہوا کہ یہ سیمینار فحاشی اور بے حیائی ہے اور الحمرا میں اس کا انقعاد اچھا نہیں لگتا۔حالانکہ وہاں ڈراموں کی صورت میں بے حیائی کا ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام ہوتا ہے جس کے خلاف اخبارات میں بھی آواز اٹھتی رہتی ہے چنانچے ہمیں وہاں اس فری سیمنار کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ ہم نے عجائب گھر کے ہال میں یہ سیمینار منعقد کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس طرح کے پروگرام اس ہال میں کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔چنانچہ عومی سطح پر یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ بعد ازاں سن فورٹ ہوٹل لبرٹی گلبرگ میں سیمینار کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا۔وہاں ہم نے چار سیمینار اور ورکشاپ منعقد کی۔
1۔ نوجوانی کے مسائل اور حل 2۔شادی کی بھرپور خواہش مسائل اور حل
3۔Use Your Brain & Change Your Life 4۔Key To Weath & Success
جب سے ہم نے سیمینار کا سلسلہ شروع کیا تھا اس وقت سے شرکاء کی رائے تھی کہ ملک بھر سے لوگ سیمینار کے لیے لاہور نہیں آسکتے۔چنانچہ اس سیمینار کو کتابی شکل میں پیش کیا جائے۔لہٰذا یہ کتاب دراصل وہ سیمینار ہے جو ہم الحمرا اور سن فورٹ میں کرتے تھے۔ تاہم اس کتاب میں بہت سے ایسے موضوعات)مثلاََ خواتین کے مسائل(شامل کئے گئے ہیں جن کا سیمینار میں تذکرہ نہ ہوتا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب نہ صرف نوجوان بچے،بچیوں بلکہ والدین اورا ساتذہ کے لیے بھی بے حد مفید ہے جنہیں یہ علم نئی نسل کو منتقل کرنا ہے۔ کوشش کی جائے کہ بچے اس کتاب کو پڑھ کر صحیح علم حاصل کریں۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بچوں کو یہ کتاب پڑھنے کے لیے دی جائے۔ دوسراطریقہ یہ ہے کہ کتاب گھر میں ایسی جگہ رکھ دی جائے جہاں سے بچے خود اُٹھا کر پڑھ لیں۔کتاب کے حوالے سے اپنی رائے دینا نہ بھولیے تا کہ آپ کی رائے اور تجاویز کی روشنی میں آئندہ ایڈیشن کو بہتر کیا جاسکے۔کتاب میں جن کیسوں اور مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں استعمال ہونے والے تمام نام فرضی ہیں اور جو تصاویر ں استعمال کیں گیں ہیں وہ صرف معلومات کی غرض سے دی گئی ہیں جو کے معیاری اور شرعی ہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.