مشت زنی کی "تباہ کاریاں "
Masturbation Side Effects
مشت زنی کے مفروضہ نقصان کے حوالے سے جتنے قصے،کہانیاں اور افسانےمشہور ہیں شاید ہی کسی اور چیز سوائے ہپناٹزم کے مشہور ہوں گے۔ اوردو میں سیکس کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجئے وہ مشت زنی کی فرضی نقصانات سے بھری ہوئی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
ہومیوں ڈاکٹر علی اصغر چودھری لکھتے ہیں:
مشت زنی سے خود اعتمادی اور قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے۔دماغ اور بنائی کمزور ہو جاتی ہے۔ذہنی الجھنیں بڑھ جاتی ہیں۔فرد تنہائی پسند ہو کر زندگی کے ہنگاموں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔عضو مخصوص کی رگیں ابھر آتی ہیں اور ٹیڑھا پن ہو جاتا ہے۔درمیان میں سے پتلا ہو جاتا ہے۔ایسے لڑکے جوان ہو کر عموماََ اخلاقی مجرم بن جاتے ہیں۔مطالعہ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔کُچھ یاد نہیں رہاتا۔بے چینی،اداسی،افسردگی،مایوسی،گھبراہٹ اور جھجھک اس پر طاری ہوجاتی ہے۔کھیلوں میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔مشت زنی سے جریان،احتلام،سرعتِ انزال اور نامردی تک امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔معدہ خراب ہو جاتا ہے،بھوک مر جاتی ہے،رات کو وحشت ناک خواب آتے ہیں۔چہرہ ہر وقت بے رونق رہتا ہے۔گال پچک جاتے ہیں اور زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے۔
معروف لکھاری اور استاد علی عباس جلالپوری ارشاد فرماتے ہیں:
کثرت جلق بلا شبہ ایک نوخیز کے جسم اور ذہن کے اکثر عوارض کا سبب بن جاتی ہے۔بارہ تیرہ سال کی عمر میں کثرت و تواتر سے جلق لگائی جائے تو اعضائے تناسل کی نشوونما رک جاتی ہے۔کوتاہی لاغری اور کجی کے باعث مبلوق مقاربت کے قابل نہیں رہتا۔اس کا نظام بھی ماؤف ہو جاتا ہے۔آنکھیں اندردھنس جاتی ہیں۔ان کے گرد سیاہ حلقے نمودار ہو جاتے ہیں آنکھوں کی پتلیاں بے رونق اور بے نور ہو جاتی ہیں۔چہرے کا رنگ مٹیالا ہو جاتا ہے۔چہرے پر پھنسیاں نکل آتی ہیں۔ہاتھ بھیگے بھیگے اور سرد رہتے ہیں،حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔بات کرتے وقت مخاطب سے آنکھ نہیں ملا سکتا نہ کسی مسئلے پر غور فکر کر سکتا ہے اس کا اعتماد نفس مجروح ہار جاتا ہے۔ مزاج ہموار نہیں رہتا،عزم وحوصلہ سے عاری ہو جاتا ہے متلون مزاج اور چڑچڑاپن ہو جاتا ہے اور ٹوٹے ہوئے جملوں میں بات کرتا ہے۔دوسرے ہم جنسوں کی صحبت سے گریز کرتا ہے اور کھیلوں میں حصہ نہیں لیتا،یکہ وتنہااِدھر اُدھر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔بدن کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا، شادی کے نام سے گھبراتا ہے، جوان عورت سے بات کرتے ہوئے اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔وہ عصبی المزاج اور تشویش کی الجھن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بس میں سفر کر رہا ہو تا ڈرتا ہتا ہے کہ کہیں اس کی ٹکر انہ جائے، سنیما میں بیٹھا ہوا تو اوپر دیکھتا ہے کہ کہیں چھت نہ گر پڑئے، اس کے اقدام اور پیش رفت کی قوت سلب ہو جاتی ہے۔اوراس میں مریضانہ جھجک پیدا ہو جاتی ہے،نفسیاتی رکاوٹ کے باعث وہ معمولی سا کام بھی سلیقے سے نہیں کر سکتامثلاََ ٹیکسی والے کو آواز دینا،کھڑکی سے ٹکٹ خریدنا،ریل میں سفر کرنا،پبلک بیت الخلاء کو استعمال کرنا، ان سب کاموں کو کرتے وقت گھبرا جاتا ہے۔وہ نہ کسی کے مذاق پر کھل کر ہنس سکتا ہے اور نہ کسی مصیبت میں کسی سے اظہار ہمدادری کر سکتا ہے۔اس کی خاموشی اور لب بستگی کے باعث لوگ اسے متکبر سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ وہ اس کے عجیب وغریب طرزعمل کے اصل اسباب سے نا واقف ہوتے ہیں۔ اسے اپنی المانک حالت کا احساس ہوتا ہے۔وہ زندگی کے حقائق سے گریز کر کے بڑے بڑے بلند نصب العین اپنالیتا ہے اور ہیرو بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ادبی ذوق سے بہرہ وار ہو تو معیار سے گرا ہوا ادب تخلیق کرتا ہے۔اس کے احساس سے رکاوت اور تخیل میں خوابنا کی سی آ جاتی ہے۔وہ اس کے شعروں اور قصوں میں بھی رقیق جذباتیت اور المناک افسردگی کا رنگ بھرتی رہتی ہے۔
200سال قبل مغرب میں بھی اسی طرح کی بے شمار سروپا باتیں مشہور تھیں کہ مشت زنی سے انسان پاگل ہو جاتا ہے۔(ایک بار ایک عالم نے ایک پاگل خانہ میں ایک پاگل کو مشت زنی کرتے دیکھا تو نتیجہ نکالا کہ مشت زنی سے انسان پاگل ہو جاتا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھوک پیاس کی طرح جنسی تسکین ایک فطری تقاضاہے۔)بینائی کمزور ہو جاتی ہے، حافظہ ختم ہو جاتا ہے،فرد چکریا سرگرانی محسوس کرتا ہے،مرگی کے دورے پڑتے ہیں،فرد شدید ذہنی امراض،دل کے امراض اور ضعف عقل کا شکار ہو جاتا ہے،منہ پر دانے نکل اور جسم پر موکے آجاتے ہیں،فرد گنجے پن اور شرمیلے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں مغرب اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تو جدید تحقیق کی روشنی میں نوجوانوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ مشت زنی کے نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔یہ جہالت کے دور کی باتیں تھیں مگر بد قسمتی سے ہم ابھی تک اسی دور میں رہ رہے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.